the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز
etemaad live tv watch now

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

5 فروری کو ہونے والے دہلی اسمبلی انتخابات میں کون سی سیاسی پارٹی جیتے گی؟

عام آدمی پارٹی
کانگریس
بی جے پی

عمر فراہی

دو دن پہلے جب محترم محمود دریا بادی, جناب ابو حسان صاحب اور قاضی عبدالرحمٰن صاحب کا صفا اسلامک ہائ اسکول پر تبصرہ پڑھا تو ذہن میں آیا کہ اس تعلق سے اپنے حقیر خیالات اور یادداشت پر کچھ روشنی ڈالوں مگر کاروباری مصروفیت اور اس عنوان کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوےُ اس لیںُے بھی خاموش رہنا پڑاکہ یہ موضوع انیسویں صدی کے بعد سے ہی ہمارے درمیان ایک طویل بحث اور تحقیق کا عنوان رہا ہے -اس لیںُے اگر قلم کو جنبش دینے کی جراُت کی گںُی تو کہیں اس عنوان سے ہندوستان میں درس وتدریس اور تعلیمی کافلے کے روح رواں سرسید احمد خان, صابو صدیق,  مولانا شبلی, مولانا حمیدالدین فراہی اور مولانا علی میاں ندوی  سے لیکر  ڈاکٹر رفیق ذکریا غلام دستانوی, ولی رحمانی , ڈاکٹر ذاکر ناںُیک اور مبارک کاپڑی تک  کی کاوشیں نہ زیر بحث آجاںُیں اور پھر  وقت کی قلت کی وجہ سے اگر کسی عنوان میں تشنگی رہ جاےُ تو پھر اس موضوع کا حق بھی تو ادا نہیں ہو پاتا - لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ مصنف اپنے اس حق کو ادا ہی کردے یا اس کی آراء سے ہر کسی کا اتفاق ہی ہو جاےُ -پمارا خیال یہ ہے کہ دنیا میں ایک مسلمان کی اپنی حیثیت اور شناخت داعی کی ہوتی ہے اس لیںُے جب ہم کسی مقصد کو حاصل کرنے کی بات کرتے ہیں تو ذہن میں یہ سوال بھی اٹھنا لازم ہے کہ  کیا اسلام ہمیں اس مقصد کو حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے -یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ تعلیم ہمارا مقصد یا اسلام نہیں ہے بلکہ یہ ایک ہتھیار  ہے جو انسانی ذہن سے جہالت اور اندھیرے کے پردے کو چاک کرکے انسان کو صراط مستقیم یا صحیح رخ کے تعین کا فیصلہ کرنے میں مدد کرتی ہے - آج کے دور میں انسانی ضروریات اور ایجادات نے جس طرح  صنعت وتجارت اور انجنیرنگ کے شعبے کو وسعت دی ہے علم و ہنر اور تحقیق و جستجو کے  زاویے میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے بلکہ گلوبلاںُیزیشن اور  جیومیٹری کی زبان میں ایک داںُرے کے  360ڈگری کا زاویہ جو اٹھارہویں صدی کے پہلے تک نامکمل یا ابتدائی مراحل کے دور میں تھا اب اکیسویں صدی میں تقریباً مکمل ہونے کے قریب ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ انسان  اپنی ترقی اور علم کی اس انتہا کو پہچ چکا ہے جسے اگر انسانی اخلاق و اقدار کے پیرہن میں نہیں ڈھالا گیا تو اس پورے معاشرے کی تباہی یقینی ہے اور کسی حد تک ہم اس اندھی ترقی کے تباہ کن نتائج سے آشنا بھی ہو رہے ہیں -ایسے میں ایک طالب علم کے پاس جبکہ بچپن سے بڑھاپے تک کسی بھی سبجکٹ یا عنوان پر عبور حاصل کرنے کیلئے صرف شروع کے  تیس سال کا وقفہ ہی درکار ہوتا ہے اور اس وقفے میں بھی یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہی ہوجاےُ اور جس طرح اس کے بعد  اس کی پوری زندگی معاشی اور گھریلو زندگی کی جدوجہد اور ضروریات کی تکمیل میں ہی  سرف ہوجاتی ہے یہ ناممکن ہے کہ  وہ جدید دور کے 360 ڈگری کے تحقیقی اور  علمی  زاویے کو طںُے کر پاے -ہمارا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس تیس سال کے تعلیمی وقفے کے دوران اگر بچے کو کوئی ٹھوس اخلاقی تعلیم نہیں دی گںُی یا وہ انسانی اقدار اور اپنے پیدا ہونے کے مقصد یعنی اقراء بسم ربک الذی خلق سے غافل اور  محروم رہ جاتا ہے تو وہ اپنی باقی کی زندگی میں  اپنی اس غیر اخلاقی دنیاوی اور مادی تعلیم کی کامیابی اور ناکامیابی دونوں ہی صورتوں میں جو فسادات برپا کریگا اس کا تصور آج کے اس مادہ پرست مسابقت اور سرمایہ دارانہ نظام میں بخوبی کیا جاسکتا ہے جہاں ہر شخص اپنے ہاتھ میں تحریر و تقریر سازش اور بارود کی شکل میں پتھر لیںُے کھڑا ہے اور اس موقع کی تلاش میں ہے کہ اگر کوئی بات اس کے مزاج اور توقع کے خلاف ہو تو وہ اس پتھر کو اپنے مخالف کے سر پر دے مارے-
ایسے میں علمبرداران اسلام کی یہ ذمداری ہوتی ہے کہ وہ انسان کے اندر سے اس جانور کو ختم کرنے اور اسے تباہی کے ہتھیار میں تبدیل ہونے سے پہلے ہی اسلامی اخلاق و اقدار کی تعلیم سے روشناس کراںُیں- ہمارے ملک میں دعوت و تبلیغ میں مصروف مختلف تنظیمیں یہ کام کر بھی رہی ہیں اور جو لوگ ان تنظیموں سے جڑے ہیں اس کے فاںُدے سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا مگر ادیان باطل یا خالص مادہ پرست طاقتوں کے مقابلے میں یہ تحریکیں اگر پر اثر نہیں ثابت ہورہی ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باطل طاقتوں کو اقتدار حاصل ہے اور وہ جہاں اپنی تمام جدید حکومتی ذراںُع اور وسائل کے ساتھ  اپنے استعماری عزائم کی تکمیل کیلئے اسلامی تعلیمات اور اصول پر حملہ آور ہیں مسلمانوں کے کافلے کا بھی ایک کثیر گروہ نادانستہ یا اپنی مادی کمزوری کی بنیاد پر ان کی جماعت کا سپاہی ہے -ہمارا یعنی مسلم علماء دین اور اہل دانش کا مسُلہ یہ ہے کہ جس طرح ارباب اقتدار اپنے باطل نظریات کو باقاںُدہ اسکولوں اور کالجوں کے ذریعے مشتہر کر رہے ہیں ہمارے پاس بھی دعوت و تبلیغ کا کوئ ٹھوس منصوبہ نہیں ہے اور ہم  آج بھی گلی کوچوں میں لیٹریچر بانٹنا یا نماز کی دعوت دے کر  مطمُن ہیں -جبکہ ہمارے انبیاء کرام کی  سنت یہ رہی ہے انہوں نے سب سے پہلے اپنے اس اخلاق و اقدار کی دعوت کو وقت کے نمرود , فرعون اور سرداران قوم کے سامنے پیش کیا -اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک حاکم اور سردار کے راہ راست پر آنے سے پوری کی پوری قوم میں انقلاب پیدا ہو سکتا تھا -موجودہ دور میں یہ کام اسکولوں اور کالجوں کے نصاب میں اخلاق و اقدار کی اسلامی تعلیم کی شمولیت



کے ذریعے کیا جاسکتا ہے -ہندوستان جیسے کثیر المذاہب سماج میں چونکہ کالجوں کی سطح تک یہ کام مشکل ہے مگر ہمارا جمہوری آںُین ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے کہ پری پراںُمری اور سکنڈری تک ہم ایسا نصاب تیار کریں جہاں اسلام کی بنیادی  تعلیمات کے ساتھ ساتھ سرکاری اسکول بورڈ کے ہم جہتی نصاب کو بھی مکمل کروانا مشکل نہ ہو -
محمود دریا بادی صاحب نے صفا اسلامک ہائ اسکول کا جو ذکر کیا ہے غالباً اس طرح کے ہائ پروفاںُل اسکولوں کی شروعات ساؤتھ افریقہ پاکستان اور  دبئ وغیرہ سے ہوئی ہے جسے ممبئ میں سب سے پہلے ڈاکٹر ذاکر ناںُیک نے اسلامک انٹرنیشنل اسکول کے نام سے شروع کیا اور وہ کامیاب بھی رہے اور اب ہماری معلومات کے مطابق ممبئ میں کم سے کم ایسے دسیوں اسلامک اسکول کھل چکے ہیں جو ہندوستان میں بابری مسجد کی شہادت اور 9/11 کے بعد عالمگیر سطح پر اسلام کی مقبولیت نے خود مسلمانوں کو بھی ایک بار پھر اسلام کی طرف راغب ہونے پر آمادہ کیا - اسی سلسلے میں ایک بار ہماری ملاقات برطانیہ کے ایک ہم عصر اسلامی اسکالر عیسںٰ منصوری صاحب سے بھی ہو چکی ہے جو برطانیہ میں مقیم مسلمانوں میں اسلامی بیداری پیدا کرنے کیلئے ایسے کںُی اسکول قاںُم کر چکے ہیں اور وہ اپنے اس مقصد کی تکمیل کیلئے دنیا کے دیگر اسلامی ممالک کا دورہ بھی کرتے رہتے ہیں -خاص طور سے پاکستان میں ان کے اس منصوبے پر بہت ہی وسیع پیمانے پر کام ہو رہا ہے - اب ضرورت اس بات کی ہے کہ  پچھلے پندرہ سالوں میں جہاں دس سے بارہ اسکول امیر وکبیر گھرانے کے بچوں کیلئے کھولے گںُے ہیں جس کی ماہانہ فیس تقریباً چار سے پانچ ہزار ہے ایسے اسکول بھی قاںُم ہوں جہاں پسماندہ اور اوسط آمدنی کے لوگ بھی جو اپنے بچوں کو کانونٹ اور مثنری اسکولوں میں بھیجنے کیلئے مجبور ہیں انہیں بھی اسلامی اور اخلاقی تعلیمات کے ساتھ متبادل راستہ مل سکے -جوگیشوری میں ملت اور اسلامک اسکالر کے نام سے کچھ ایسے اسکول قاںُم ضرور ہوےُ ہیں لیکن کانونٹ کے مطلوبہ معیار کو نہ پہنچنے کے سبب ان کی شہرت میں کچھ گراوٹ آئ ہے -ضرورت اس بات کی ہے کہ جو وقت اور سرمایہ ہمارے لوگ دعوت و تبلیغ کیلئے باہر کی دنیا اور اجتماعات میں سرف کر رہے ہیں ان اسکولوں کے معیار بلند کرنے میں لگایا جاےُ تاکہ ہمارے بچوں میں ڈراپ آوٹ کی کمی ہو اور یہ بچے زیادہ سے زیادہ اسلامی تعلیمات سے آراستہ ہو کر کالجوں میں داخل ہوں اور  وقت کے روہت وومیلا اور کنہیاؤں کی ذہن سازی کر سکیں دوسرے لفظوں میں ہمارے عام مبلغین کا جو پیغام ہندو یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پہنچنا ناممکن ہو رہا ہے ان بچوں کے ذریعے پہنچانے میں آسانی ہو -اسلامک انٹرنیشنل ہائ اسکول کے مالک  ڈاکٹر ذاکر ناںُیک اور صفا اسلامک ہائ اسکول کے مالک مرحوم  شہاب بھائی کیلئے یہ کام اس لیںُے ممکن ہو سکا کیوں کہ وہ نہ صرف جدید تعلیم یافتہ اور بچپن سے ہی دیندار تھے اللہ نے ان کے والدین کو بے شمار دولت سے بھی نوازہ تھا- شہاب بھائی کو تو میں ذاتی طورپر اس لیںُے جانتا ہوں کہ ان کے والد ہمارے والد اور کچھ دیگر ان کے دوست احباب روزگار کی تلاش میں ایک ساتھ ہی ممبئ میں آےُ تھے اور انہوں نے بھنڈی بازار کی بی آئ ٹی چال میں دوستوں کے یہاں قیام کیا اس لیںُے میں اپنے والد کے ذریعے ان کے والد کو تو جانتا تھا اور ملاقات بھی رہی لیکن چونکہ ممبئ میں  1985 میں آیا اور شہاب بھائی بھی مجھ سے پانچ سال بڑے رہے ہیں اس لیںُے ان سے کبھی قریبی تعلقات نہیں رہے ہاں اکثر مرغی محلہ کی مسجد میں ان سے رسماً سلام دعا ہو جایا کرتی تھی-مجھے تعجب ہوتا تھا کہ وہ دیندار گھرانے سے نہ ہو کر بھی صوم و صلواۃ کے بہت پابند تھے -خاص طور سے نوجوانی کے دور سے ہی چہرے پر لمبی داڑھی کو دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ اپنے باپ کا یہ اکلوتا نوجوان جس کے پاس دولت کی بارش ہو رہی ہے اگر چاہتا تو عیش عشرت کی زندگی بھی گذار سکتا تھا مگر کاروبار کو سمبھالنے کےساتھ ساتھ وہ اکثر چالیس دن کی جماعت میں نکل جایا کرتے تھے -خیر  شہاب کی ذاتی شخصیت پر روشنی ڈالنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ ممبئ میں شہاب کی طرح کی اور بھی شخصیات ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ان کی نظر میں اس طرح کے اداروں کی افاریت کا علم اور اندازہ نہ ہو اس لیںُے میں دعوت و تبلیغ میں مصروف ہندوستان کی تمام تحریکوں سے کہنا چاہونگا کہ وہ اس طرح کے تعلیمی منصوبوں کے ساتھ وقت کے شہاب و ثاقب کے سامنے اپنی دعوت پیش کریں-اس طرح نہ صرف دعوت کے فراںُض بھی ادا ہوں گے  اس کوشس سے ہندوستان کے پسماندہ علاقوں میں بھی قاںُم ہونے والے اسکولوں سے دیگر پسماندہ مسلم طبقات بھی مستفید ہو سکیں گے نیز ان اسکولوں سے نکلنے والے بچے کالجوں میں  دیگر برادران وطن کی ذہن سازی میں معاون ہو سکتے ہیں -ایک سستی اور اسلامی ماحول میں تعلیم کا یہ کام ہماری مسجدوں کے ذریعے بھی جو کہ نماز کے باقی اوقات میں کھالی رہتی ہیں لیا جا سکتا ہے جیسا کہ بنگلور اور چنںُی کی کچھ مسجدوں کو جدید تعلیم کیلئے استعمال میں لیا جا چکا ہے-ہمارے عماماء اور دانشور حضرات اس رخ پر غور کر سکتے ہیں خاص طور سے اس گروپ پر موجود مولانا محمود دریا بادی , مولانا فضیل ناصری صاحب, ودود ساجد صاحب اور مولانا ابو حسان پوترک صاحب جو ک نیرل میں کسی ربانی اسکول پر کام کر چکے ہیں ان کی توجہ کا طالب رہونگا کہ یہ حضرات اس سلسلے میں اپنی قیمتی آراء سے نوزیں گے -
وما علینا الالبلاغ -
اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
خصوصی میں زیادہ دیکھے گئے
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2025 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.